مدت کے بعد دیکھا گلِ سرخ فام کو
مدت کے بعد دیکھا گلِ سرخ فام کو
کرتے تھے یاد ان کو ہر صبح و شام کو
دھڑکن کی صاف آئی دھڑک اپنے کان تک
آتے ہوۓ جو دیکھا محشر خرام کو
ہم اور طورِ ربط نہیں کرتے اختیار
گل تک اے باد لے جا میرے پیام کو
عرصہ ہوا کہ بیٹھے ہیں ہم انتظار میں
بھر دے اے ساقی اب تو میرے بھی جام کو
آشفتہ دل کی یا رب پوری مراد ہو
کرتا تو ہی عطا ہے ہر خاص و عام کو
جب آئے گی قضا تو اپنے خلوص کا
ہاں علم ہو ہی جائے گا دنیا تمام کو
ایسا نہ ہو نفیسؔ کہ لگ جائے نظرِ بد
بس اب سمیٹ لو یہیں اپنے کلام کو