یوں دسترس میں دیکھیے گلگوں گلاب ہے
یوں دسترس میں دیکھیے گلگوں گلاب ہے
صحرا میں اک سراب کے سینے میں آب ہے
حالت میں اضطراب کی یوں اضطراب ہے
ابھرے گا پھوٹ جائے گا دل بھی حباب ہے
بے زر کی اس جہان میں مٹی خراب ہے
زر کا تو ایک ذرہ بھی یاں آفتاب ہے
بہتات ہے گلاب کے رنگوں کی دہر میں
پر ان میں سرخ رنگ حسیں انتخاب ہے
کیا ہو مقابلہ کوئی ابنائے جنس سے
بے نور آفتاب ہے ایسا شباب ہے
گر معترض ہے کوئی غزل کہہ رہے ہو کیوں
اس کو تو بس نفیسؔ کا اتنا جواب ہے
تصویر کی ثنا ہے مصور کو داد سو
تحسین ؚ خلق رب کی ثنا ہی کا باب ہے