جوں تھی فضائے دشت معطر حسینؑ سے
جوں تھی فضائے دشت معطر حسینؑ سے
ہو گی زمیں سخن کی بھی امبر حسینؑ سے
اکبرؑ ہوئے حسینؑ سے، قول نبیؐ جو تھا
شبیرؑ ہیں نبیؐ سے پیمبرؐ حسینؑ سے
امید کے جو مٹ گئے آثار کیا ہوا
لکھوا کے لاؤ جا کے مقدر حسینؑ سے
شاہی کو سب قلوب کی رب عظیم نے
پایا نہ اس جہان میں بہتر حسینؑ سے
ہفتم کو بند جو ہوا پانی حسینؑ پر
ہیں شرمسار سات سمندر حسینؑ سے
گہ اٹھتے گاہ گرتے شہنشاہ کربلاؑ
ڈھونڈے نہ جاتے تھے علی اکبرؑ حسینؑ سے
جب ذوالفقار شہؑ نے چلائی تو عزرئیلؑ
خواہاں تھا جنگ بندی کا تھک کر حسینؑ سے
حیراں تھا شمر کٹتا نہیں شاہؑ کا گلا
لپٹی تھیں کفوِ ساقی ؚ کوثرؑ حسینؑ سے
لاکھوں کی کیا مجال تھی ہوتی جو کائنات
نابود پل میں ہوتا وہ لشکر حسینؑ سے
ہر دم صدائیں دیتے ہیں لبیک یا حسینؑ
نصرت کا وعدہ کرتے ہیں رو کر حسینؑ سے
اشعار یہ نفیسؔ نے پائے ہیں دان میں
پاتے ہیں یہ خزانہ سخن ور حسینؑ سے