لکھنا جو ان کا نام ہو باہر بساط سے
لکھنا جو ان کا نام ہو باہر بساط سے
لکھے گا کلک دیدہ پھر اشکی دوات سے
اشکِ غم حسین کا یہ بھی ہے اک مقام
بہتر ہے لاکھ درجے یہ آبِ حیات سے
جو لوگ آشنا ہیں کرم سے حسین کے
بالکل ہی نا شناس ہیں ناممکنات سے
کرتے ہیں بس رسول کی عترت کی گفتگو
تعلق نہیں ذرا سا بھی غیروں کی بات سے
جن کو نبی و آل پیمبر سے راہ ہے
وہ کچھ علاقہ رکھتے نہیں مہملات سے
گفت و شنید کر کے امام زمان سے
میں نے بھی دیکھے زیست میں کچھ معجزات سے
چھوڑ آیا غازی پیچھے وفا کی حدود کو
بن آب نہ خیام میں لوٹا فرات سے
مشکل کشا علی ہیں عقیدہ ہو جب نفیس
ڈرنے کا کیا جواز ہے پھر مشکلات سے