اس کی مدحت ہو مشتاق سے کیا بیاں
اس کی مدحت ہو مشتاق سے کیا بیاں
جو تمنا ہے حیدرؑ کی زہراؑ کی جاں
جس کے آگے ہیں شمس وقمر بے حضور
جس کی ہیبت سے تھرائیں ارض و سماں
کچھ خبر نہ تھی صفین میں فوج کو
مر رہے تھے وہ رکھ کر علیؑ کا گماں
بوجھ وہ لوگ دھرتی پہ ہیں باخدا
ذکر ان کا گزرتا ہے جن پر گراں
شامیوں کا وہاں زور کیسے چلے
دست والفجرؑ خود کھینچ دے خط جہاں
خلق عباسؑ و حیدرؑ کو رب نے کیا
کیا بنی خوب ترکیبِ خرد و کلاں
ایک شیرِ خدا ایک شیرِ علیؑ
دو جہاں کو ہیں کافی یہ دو ہستیاں
جب لگا مشک میں تیر ٹھہرے وہیں
گویا خود سے ہوا اس جگہ وہ جواں
کیسے دریا سے بن آب جاؤں گا میں
منتظر ہوں گے مولاؑ کے بچے وہاں
ساتھ پھر اس کے مشک و علم بھی گرے
اور کچھ آگے کہنے کی حاجت کہاں
آج کرتی ہے ذکر ان کا میرے خدا
بعد مرنے کے بھی نہ رکے یہ زباں