نہ جانے کیوں
اندھیر چار سو ہے چھایا نہ جانے کیوں
غربت کا ہر طرف ہے سایہ نہ جانے کیوں
پھولوں نے اپنا رنگ اڑایا نہ جانے کیوں
بلبل نےایسا نالہ سنایا نہ جانے کیوں
اس آگ نے ہے دل کو جلایا نہ جانے کیوں
تھا اختراعِ دیس پہ خوشحالی کا گماں
ملک ابتداء میں راہِ ترقی پہ تھا رواں
پر دورِ حاضرہ سے ہوا ہے یہ اب عیاں
سارے وہ خواب ہو گۓ جل کر دھواں دھواں
اس ملک کی پلٹ گئی کایا نہ جانے کیوں
اس میں حقیقتاً تو ہمارا ہی ہاتھ ہے
دھوکہ دہی پہ ناز بھی پھر ساتھ ساتھ ہے
سچی نہ سوچ ہے کوئی نے سچ کی بات ہے
اب رہ گیا بنام قلم اور دوات ہے
ایسا ہے وقت ہم پہ آیا نہ جانے کیوں
اس بات میں ہے راز کوئی تو چھپا ضرور
کرتے رہو بھلا تو ملے گا بھلا ضرور
اور ہے یقیں خدا سے ملے گا صلہ ضرور
افسوس پھر بھی کرتے ہیں کچھ تو برا ضرور
ہے ظلم ہم نے خود پہ یہ ڈھایا نہ جانے کیوں
کرتے ہیں ظلم خلق پہ، رحمت بھی چاہیئے
کھا جاتے ہیں زکوٰۃ کو دولت بھی چاہیئے
دنیا سے دل لگایا ہے جنت بھی چاہئیے
اور ساتھ فیضِ مالکِ قدرت بھی چاہیئے
دل میں خیالِ خام بسایا نہ جانے کیوں
انسانیت بچی ہے نہ شرم و حیا ذرا
چھوٹوں پہ رحم ہے نہ بڑوں کا ادب رہا
خود کو فضولیات میں ہم نے محو کیا
ایمان تھا جو تھوڑا سا وہ بھی چلا گیا
ابلیس کا ہے پڑ گیا سایہ نہ جانے کیوں
وعدہ خلافی عام ہے رشوت ستانی ہے
روشن خیالی ہے نہ ہی شیریں بیانی ہے
وحدت رہی ہے نہ ہی کہیں یک زبانی ہے
اس طرح تو ترقی کبھی بھی نہ آنی ہے
خود پر بھی ہم نے رحم نہ کھایا نہ جانے کیوں
ویسے تو مدتوں سے ہیں آزاد ہم بنام
ذہنوں کو بیچ کر ہوئے مغرب کے ہم غلام
کرتے فقط ہیں گفتگو آتا نہیں ہے کام
ہاں گر یہی ہے سوچ تو اس سوچ کو سلام
دانست کا چراغ بجھایا نہ جانے کیوں
سچا اگر ہے کوئی تو اس کی نہیں قدر
جو سادہ دل ہو اس کو سمجھتے ہیں بے خبر
مخلص پہ تو کوئی بھی نہیں کرتا اک نظر
بس اب قلم بھی رو پڑا چوتھی نہیں سطر
تردد قلم نے ہے یہ دکھایا نہ جانے کیوں
سمجھے گا یہ نکات جو ہو گا کوئی فریس
گر مانو اس کی بات تو کہتا ہے یہ نفیسؔ
کوشش کرو اگر تو سبھی کام ہیں سلیس
نکلو اندھیر سے ہے یہی وقت اے جلیس
ہے کاہلی کو شیوہ بنایا نہ جانے کیوں